Tuesday, 26 March 2019

بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
اتنا غافل وہ بت عیار پہلے تو نہ تھا
اہل دل جاتے ہیں اب دار و رسن کی راہ سے
اس قدر مشکل وصال یار پہلے تو نہ تھا
مصر کی گلیاں اتر آئی ہیں اپنے شہر میں
حسن والوں کا یہ حال زار پہلے تو نہ تھا
آ رہی ہے خود بخود شاید کوئی منزل قریب
مہرباں یوں قافلہ سالار پہلے تو نہ تھا
اس میں بھی کچھ راز ہے ورنہ دیار حسن میں
درد مندوں کا کوئی غم خوار پہلے تو نہ تھا
ہوش میں آنے لگے ہیں ان بہاروں کے طفیل
ورنہ دیوانوں کا یہ کردار پہلے تو نہ تھا
روز و شب اپنے لئے ہیں قتل کے فتوے قتیلؔ
مفتیٔ شہر اس قدر دین دار پہلے تو نہ تھا

No comments:

Post a Comment

Comments

About