Tuesday, 26 March 2019

دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جا کے سانس لی جائے
بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا
یہ ندی کیسے پار کی جائے
اگلے وقتوں کے زخم بھرنے لگے
آج پھر کوئی بھول کی جائے
لفظ دھرتی پہ سر پٹکتے ہیں
گنبدوں میں صدا نہ دی جائے
کہہ دو اس عہد کے بزرگوں سے
زندگی کی دعا نہ دی جائے
بوتلیں کھول کے تو پی برسوں
آج دل کھول کر ہی پی جائے

No comments:

Post a Comment

Comments

About