Tuesday, 26 March 2019

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا
خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہم سایہ نہ تھا
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں
اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیلؔ
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا

No comments:

Post a Comment

Comments

About