Monday, 15 April 2019

مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل


کیوں مجھے موت کے پیغام دیئے جاتے ہیں۔ 
یہ سزا کم تو نہیں ہے کہ جیئے جاتے ہیں۔ 

نشہ دونوں میں ہے ساقی مجھے غم دے یا شراب۔ 
مہ بھی پی جاتی ہے آنسو بھی پیئے جاتے ہیں۔ 

آبگینوں کی طرح دل ہیں غریبوں کے ‛‛شمیم‛‛۔ 
ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں۔

مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل۔
درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل۔ 
مانی ہزار مَنتیں ۔ ۔ ۔ ۔

میری طرح خدا کرے تیرا کسی پہ آئے دل ۔
تو بھی جگر کو تھام کہ کہتا پھرے کے ہائےدل ۔
مانی ہزار مَنتیں ۔ 
مانی ہزار مَنتیں ۔ 

‛‛ہووو ۔ 
پئیاں صاف تنہائیاں ڈسدیاں ھِن وہ تے وِچ قسمت چکر عجیب اے ۔ 
معمول مطابق زندگی وِچ ڈِٹھے درد ہزار غریب اے ۔
ہویا اے جو اج تئیں زندہ ہاں رہی بالکل موت قریب اے۔
پرویز وصال نی ہو سگیا کوئی ایہجیا نیک نصیب اے‛‛۔

غنچہ سمجھ کے لے لیا چُٹکی سے یوں مسل دیا ۔
ان کا تو اک کھیل تھا لُٹ گیا میرا ہائے دل۔ 
مانی ہزار مَنتیں ۔ 
مانی ہزار مَنتیں ۔

‛‛دل ہمارا زلف کی زنجیر کے قابل نہ تھا۔ 
یہ ابھی معصوم تھا تعزیر کے قابل نہ تھا ۔
تم سے ایک تصویر مانگی تھی تمہیں مانگا نہ تھا ۔ 
ارے عاشقِ دلگیر کیا تصویر کے قابل نہ تھا‛‛ ۔ 

روندو نہ میری قبر کو اس میں دبی ہیں حسرتیں ۔
رکھنا قدم سنبھال کر دیکھو کُچل نہ جائے دل۔ 
مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل ۔ 
مانی ہزار مَنتیں ۔ 

عاشقِ نامراد کی قبر پہ تھا لکھا ہوا ۔
جس کو ہو زندگی عزیز وہ نہ کہیں لگائے دل۔ 
مانی ہزار مَنتیں۔ 
مانی ہزار مَنتیں ۔ 

‛‛ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو۔ 
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں۔ 
آﺅ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں۔ 
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں‛‛۔ 

پوچھتے کیا ہو میرے غم ملتے ہیں بے وفا صنم۔ 
چھوڑو بُتوں کی دوستی دیتا یہی ہے رائے دل۔ 
مانی ہزار مَنتیں رد نہ ہوئی بلائے دل ۔ 
درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل۔

Saturday, 30 March 2019

اتباک ابرک


رات دن آسان ہوتے جارہے ہیں
جب سے ہم انجان ہوتے جا رہے ہیں

سانس تھے ہم جان تھے ہم زندگی تھے
اب کدھر وہ دھیان ہوتے جا رہے ہیں

کیا گلہ اب کیجئے اک دوسرے سے
دل ہی بے ایمان ہوتے جا رہے ہیں

تم بھی اب وہ اپسرا سی کب رہی ہو
ہم بھی اب انسان ہوتے جا رہے ہیں

جسکو جو چاہے سمجھنا ہے سمجھ لے
اس قدر آسان ہوتے جا رہے ہیں

دیکھ ہم کو واپسی کے راستوں پر
راستے حیران ہوتے جا رہے ہیں

غم الم، تنہائیاں وہ رت جگے سب
میرے بن ویران ہوتے جا رہے ہیں

ہم نے سوچا تھا بہت مشکل ہے جینا
خود بہ خود سامان ہوتے جا رہے ہیں

اس طرح آزاد ہیں اب سب فضائیں
قید خود زندان ہوتے جا رہے ہیں

ہم ترے بن آج یوں زندہ ہیں ابرک
زندگی کی جان ہوتے جا رہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اتباک ابرک


بس ایک شخص کا ہی طلب گار ہو گیا
آخر یہ دل بھی صاحبِ کردار ہو گیا

جب سے لگا ہے تم سے کسی کام کا نہیں
جی لٹ کے میرا اور بھی جی دار ہو گیا

کتنی کرید تھی کہ قیامت ہے کیا بلا
اچھا ہوا کہ آپ کا دیدار ہو گیا

آغاز کو خبر نہ تھی انجام ہو گا یہ
بن کچھ کئے یہ بندہ خطا وار ہو گیا

آگے کا خواب دوستو تھا اور بھی حسیں
اس ڈر سے ڈر کے بیچ میں بیدار ہو گیا

تھیں منزلیں ہزار نگاہوں کے سامنے
تیرا خیال راہ کی دیوار ہو گیا

اپنا تو سر جھکا تھا یہ تعظیم کے لئے
کم ظرف یہ زمانہ تو سرکار ہو گیا

فقرہ تھا آخری یہ کہانی کا دل نشیں
پھر یوں ہوا کہ غم مرا غم خوار ہو گیا

ابرک، اسی میں ڈر سے نہیں مانگتا اسے
کیا ہو گا گر وہاں سے بھی انکار ہو گیا

جانے لکھے میں تیرے ہے ابرک یہ سحر کیا
ہر شخص دل و جاں سے خریدار ہو گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اتباک ابرک


اپنے ہو کر بھی جو نہیں ملتے
دل یہ جا کر ہیں کیوں وہیں ملتے

یہاں ملتی نہیں ہیں تعبیریں
ہاں مگر خواب ہیں حسیں ملتے

ہم کو مانگا نہیں گیا دل سے
کیسے ممکن تھا ہم نہیں ملتے

یونہی بے کار ہر تلاش گئی
وہ نہیں تو چلو، ہمیں ملتے

یہ قیامت تو بس دلاسہ ہے
ملنا ہوتا انہیں یہیں ملتے

لازماً سب قصور میرا ہے
لوگ تو سب ہیں بہتریں ملتے

روز اپنے سے اعتبار اٹھے
روز وعدے ہیں پر یقیں ملتے

توبہ کتنی سمٹ گئی دنیا
ایک گھر کے نہیں مکیں ملتے

کاہے تکتی ہے آسمانوں کو
چاند تارے نہیں زمیں ملتے

سارے قصے میں وہ رہے میرے
اب ہے انجام تو نہیں ملتے

تم سے ملتے گلی گلی ، ابرک
ہم سے جوہر کہیں کہیں ملتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک

اتباک ابرک


اک مسلسل عذاب ہے یارو
یعنی دل کامیاب ہے یارو

اب کسی کو نہیں طلب میری
ہر طرف سے جواب ہے یارو

اک غلط سانس کی بھی گنجائش
یہاں کب دستیاب ہے یارو

زندگی بیچ ایک صحرا کے
کسی پیاسے کا خواب ہے یارو

پاس آ کر بدل ہی جاتا ہے
آدمی بھی سراب ہے یارو

ہم محبت سمجھ کے کرتے رہے
اور محبت عتاب ہے یارو

خواب دیکھا ہے آج اس نے مرا
آج دیکھا یہ خواب ہے یارو

وہ کہ پرواہ بھی نہ کرتا ہے
اپنا خانہ خراب ہے یارو

دل کا اندھا ہوں اور اندھے کو
دیا بھی آفتاب ہے یارو

وہ نہیں ہے تو فکر ہے کس کو
اور کیا دستیاب ہے یارو

خود کو کھنگالتا ہے جب ابرک
وہ ہی وہ، بے حساب ہے یارو

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اتباک ابرک


زندگی آدھی ہے، ادھوری ہے
تیرا آنا بہت ضروری ہے

سامنے تو ہے لمحہ لمحہ مرے
اور زمیں آسماں کی دوری ہے

کوئی منطق ، کوئی دلیل نہیں
تو ضروری تو بس ضروری ہے

جیسے قسمت پہ اختیار نہیں
یہ محبت بھی لا شعوری ہے

کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے

ایک بس تو رہا مری حسرت
اور ہر آرزو تو پوری ہے

لکھتے لکھتے گزر گیا ابرک
داستاں آج بھی ادھوری ہے

.........................اتباف ابرک

اتباک ابرک


گر نہیں ہے تو اسے مت کیجے
یونہی ضائع نہ محبت کیجے

کیا دکھاوے کا تعلق رکھنا
اس سے بہتر ہے کہ نفرت کیجے

جو نہیں تیرا اسی کا ہونا
ہے حماقت نہ حماقت کیجے

مار ڈالے گی مروت ہم کو
ختم ہر اپنی عنایت کیجے

بے وفا ہو یا ہو مجبور کوئی
بہ خوشی ایسوں کو رخصت کیجے

جانے والوں کو دعا دے کے کہو
پھر سے آنے کی نہ زحمت کیجے

مانا مشکل ہے سنبھلنا دل کا
دل سے ہر گز نہ رعایت کیجے

دل کی فطرت ہے بغاوت کرنا
اب کہ اس دل سے بغاوت کیجے

ایک ہی شخص کو لکھے جانا
بند ابرک یہ بلاغت کیجے

اپنے حصے میں بھی کچھ رکھ لیجے
اب کہ ابرک جو محبت کیجے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اتباک ابرک


مستقل کون جگہ دیتا ہے
ہر کوئی دل سے اٹھا دیتا ہے

ڈھونڈ کر خود کو جسے سونپتا ہوں
پہلی فرصت میں گنوا دیتا ہے

غلطی اس کی جو بھروسہ کرتا
اس کا کیا ہے جو دغا دیتا ہے

خواب دیکھے ہے سماعت میری
اب ہمیں کون صدا دیتا ہے

سامنے کچھ ہے دکھاتا کچھ ہے
دل یہ اندھا ہی بنا دیتا ہے

حسن سے بحث نہیں ہو سکتی
بات، باتوں میں گھما دیتا ہے

ہار جاتا ہے دلیلوں سے جہاں
شعر میرے ہی سنا دیتا ہے

عمر بھر خواب جو تکیہ تھا مرا
اب ڈرا کر وہ جگا دیتا ہے

کچھ جنوں پیشہ ہے دیوانہ ترا
کچھ زمانہ بھی ہوا دیتا ہے

جانے کیا روگ لگا ہے ہم کو
بندہ بندہ ہی دعا دیتا ہے

چار دن کا ہی تعلق ابرک
سب کی اوقات بتا دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

اتباک ابرک


اک مسلسل سے امتحان میں ہوں
جب سے رب میں ترے جہان میں ہوں

صرف اتنا سا ہے قصور مرا
میں نہیں وہ ہوں جس گمان میں ہوں

کون پہنچا ہے آسمانوں تک
ایک ضدی سی بس اڑان میں ہوں

جس خطا نے زمین پر پٹخا
ڈھیٹ ایسا، اسی دھیان میں ہوں

اپنے قصے میں بھی یوں لگتا ہے
می‍ں کسی اور داستان میں ہوں

در و دیوار بھی نہیں سنتے
اتنا تنہا میں اس مکان میں ہوں

زندگی اک لحافِ ململ ہے
سرد موسم ہے کھینچ تان میں ہوں

تولتی ہیں مجھے یوں سب نظریں
جیسے میں جنس ہوں دکان میں ہوں

کوئی سمجھا نہ میری بات ابرک
میں کسی اور ہی زبان میں ہوں

................................ ... اتباف ابرک

اتباک ابرک


اک اُسی کو دھیاں نہیں ہوتا
جس کے بن یہ جہاں نہیں ہوتا

اس محبت میں یہ خرابی ہے
جو جہاں ہے وہاں نہیں ہوتا

ڈھونڈھئے گا کہاں کہاں اس کو
جانے والا کہاں نہیں ہوتا

آگ ایسی کہ راکھ راکھ بدن
ظرف اتنا ، دھواں نہیں ہوتا

جانے کیا بھیڑ ہے مرے اندر
لہو تک اب رواں نہیں ہوتا

کچھ بھی کر لیجئے مگر بندہ
آپ سے بد گماں نہیں ہوتا

صرف ہم تب تلک نبھائیں گے
جاں کا جب تک زیاں نہیں ہوتا

در و دیوار سے لپٹتے ہیں
جب کوئی راز داں نہیں ہوتا

تم پہ گزری ہے تم کہو ابرک
ہم سے آگے بیاں نہیں ہوتا

.......................... اتباف ابرک

اک اُسی کو دھیاں نہیں ہوتا
جس کے بن یہ جہاں نہیں ہوتا

اس محبت میں یہ خرابی ہے
جو جہاں ہے وہاں نہیں ہوتا

ڈھونڈھئے گا کہاں کہاں اس کو
جانے والا کہاں نہیں ہوتا

آگ ایسی کہ راکھ راکھ بدن
ظرف اتنا ، دھواں نہیں ہوتا

جانے کیا بھیڑ ہے مرے اندر
لہو تک اب رواں نہیں ہوتا

کچھ بھی کر لیجئے مگر بندہ
آپ سے بد گماں نہیں ہوتا

صرف ہم تب تلک نبھائیں گے
جاں کا جب تک زیاں نہیں ہوتا

در و دیوار سے لپٹتے ہیں
جب کوئی راز داں نہیں ہوتا

تم پہ گزری ہے تم کہو ابرک
ہم سے آگے بیاں نہیں ہوتا

.......................... اتباف ابرک

Tuesday, 26 March 2019

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر
دستار جنہیں دی ہے انہیں سر بھی عطا کر
لوٹا ہے سدا جس نے ہمیں دوست بنا کر
ہم خوش ہیں اسی شخص سے پھر ہاتھ ملا کر
ڈر ہے کہ نہ لے جائے وہ ہم کو بھی چرا کر
ہم لائے ہیں گھر میں جسے مہمان بنا کر
اک موج دبے پاؤں تعاقب میں چلی آئی
ہم خوش تھے بہت ریت کی دیوار بنا کر
ہم چاہیں کہ مل جائیں ہمیں ڈھیر سے موتی
سیڑھی کسی پر ہول سمندر میں لگا کر
درکار اجالا ہے مگر سہمے ہوئے ہیں
کر دے نہ اندھیرا کوئی بارود جلا کر
لے اس نے ترا کاسۂ جاں توڑ ہی ڈالا
جا کوچۂ قاتل میں قتیلؔ اور صدا کر
کیسے کیسے بھید چھپے ہیں پیار بھرے اقرار کے پیچھے
کوئی پتھر تان رہا ہے شیشے کی دیوار کے پیچھے
دل میں آگ لگا جاتا ہے یہ بن یار بہار کا موسم
ایک تپش بھی ہوتی ہے اس ٹھنڈی سی پھوار کے پیچھے
سوچ ابھی سے پھر کیا ہوگا بیت گئی جب رات ملن کی
ایک اداسی رہ جائے گی پائل کی جھنکار کے پیچھے
کون لگائے کھوج کسی کا خود غرضی کے اس جنگل میں
ملتا ہے انسان یہاں بھی لیکن ایک ہزار کے پیچھے
ننگی ہو کر ناچ رہی ہے بھوکی روحوں کی مجبوری
جھانک سکو تو جھانک کے دیکھو جسموں کے انبار کے پیچھے
یہ حاکم بھی دوست ہے میرا یہ ناصح بھی میرا ہمدم
کتنے ہی غم خوار پڑے ہیں ایک ترے بیمار کے پیچھے
تیرا تو اک دل ٹوٹا ہے یار قتیلؔ اداس نہ ہو تو
لوگ تو جاں بھی دے دیتے ہیں پیارے اپنے یار کے پیچھے

Comments

About